بچوں کی ناکامی کے تین اہم اسباب
1. خوف: بچے اس لیے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ بڑوں کی توقعات پر پورا نہ اترنے سے ڈرتے ہیں۔
2. بیزاری: غیر متعلقہ اور بے روح نصاب بچوں کو بور کر دیتا ہے۔
3. الجھن: بچے اسکول کے کاموں کو حقیقی زندگی سے جوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔
تعلیمی نظام کی خامیاں
- اسکولز مضمون کو "مقصد" بنا دیتے ہیں، جبکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔
- ٹیچرز صرف "صحیح جوابوں" پر توجہ دیتے ہیں، جس سے بچے کچھ حقیقی سیکھنے کے بجائے جواب دینے کی چالاکیاں اور گر سیکھتے ہیں۔
- ہولٹ کے مطابق، اسکول بچوں کو "پروڈیوسرز" (جواب دینے والے) بناتے ہیں، نہ کہ "حقیقی سوچنے والے"
زہین ( Bright) اور کند زہن( Dull )طالب علموں کا فرق
ہوشیار اور زہین بچہ: تجربات سے سیکھتا ہے، غلطیوں سے سبق لیتا ہے، اور غیر یقینی حالات کو برداشت کرتا ہے۔
-سست یا کند زہن بچہ: خوفزدہ رہتا ہے، تجربہ کرنے سے گریز کرتا ہے، اور دنیا کو بے معنی سمجھتا ہے۔
ہولٹ نے مندرجہ ذیل تجاویز حل کے طور پر پیش کیے ہیں
- بچوں کو بار بار ناکامی سے بچائیں۔ ناکامی کو "تعمیری" سمجھا جائے، نہ کہ شرمندگی کا باعث۔
- ٹیچرز کو چاہیے کہ وہ بچوں کی سوچنے کی عادات کو سمجھیں، نہ کہ صرف انہیں کنٹرول کریں۔
- نصاب کو حقیقی زندگی سے جوڑیں تاکہ بچے سیکھے ہوئے باتوں کو عملی دنیا میں استعمال کر سکیں۔
آج کے اسکولز میں ہونے والی تبدیلیاں۔
ہولٹ کی 1964 کی تحریر کے بعد سے، امریکی اسکولز نے کچھ مثبت تبدیلیاں کی ہیں جیسے:
- ٹیچرز کا رویہ نرم اور ہمدردانہ ہوا ہے۔
- طلبہ کے پس منظر اور تجربات کو اہمیت دی جاتی ہے۔
- ترقی کے مطابق سبق اور سرگرمیاں تیار کی جاتی ہیں۔
اخری بات
ہولٹ کا ماننا ہے کہ اسکولز کا مقصد "ایسے افراد کی تیاری ہونی چاہیے جو سیکھنے کے عمل سے لگاو رکھے اور زندگی بھر سیکھتے رہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو خوف سے آزاد کیا جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔
امید ہے کہ آج کے اسکولوں میں بچے خوف سے پاک ہو کر، سیکھنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے
Comments
Post a Comment